Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر26

ساوی کو گھر آئے دو مہینے ہو چُکے تھے۔ وہ اب بِلکُل ٹھیک تھی۔ افرحہ شایان اور نادیہ بیگم کے ساتھ وہ کافی گُھل مِل گئی تھی مگر دُرید کے ساتھ ابھی بھی اجنبیت کی دیوار قائم تھی۔ دُرید اُسے ہر اُس جگہ لے کے گیا تھا جہاں وہ کبھی جاتی رہی تھی۔ کبھی آئس کریم کھلانے کبھی گھومانے۔ وہ اُسے اُس کی پسندیدہ جگہوں پر لے جاتا مگر ساوی کو کُچھ بھی یاد نہ آیا۔ مگر دُرید نے ہمّت نہیں ہاری تھی وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا اُسے سب کُچھ یاد دِلانے کی۔ گھر والے بھی اُس سے باتیں کرتے رہتے شایان اور افرحہ گھنٹوں اُس کے پاس بیٹھے اُس کے ساتھ گُزرے لمحوں کو دُہراتے اُسے یاد دِلانے کی کوشش کرتے مگر جب ذہن پر زور دینے پہ بھی کُچھ یاد نہ آتا تو وہ بے بسی سے رو پڑتی تب شایان اُسے سینے سے لگا کر اُس کا حوصلہ بڑھاتا اُسے تسلّی دیتا۔ افرحہ کی ڈیلیوری کی ڈیٹ مِل گئی تھی۔ جہاں افرحہ کُچھ ڈری ڈری سی رہنے لگی تھی وہیں شایان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اُس کا بس چلتا تو وہ گھڑی کی سوئیوں کو آگے کر کے وہ دن لے آتا جس دن اُس کا بچہ اُس کی گود میں آتا۔ نادیہ بیگم اپنی خوشحال فیملی کو دیکھتی خدا کا شُکر ادا کرتیں مگر لبھی کبھی اپنے شریکِ سفر کو یاد کرکے آبدیدہ ہوجاتیں اور تنائی میں سب سے چُھپ کر آنسو بہا لیتیں۔ اُنہوں نے دُرید کو معاف کر دیا تھا۔ وہ اُن کا بیٹا تھا بے شک سگا نہیں مگر پالا تو انہوں نے ہی تھا۔ ساوی کی جدائی میں دُرید کے دُکھ اور تکلیف کی گواہ تھیں وہ تو کیسے نہ معاف کرتیں۔ آخر کار وہ دِن بھی آہی گیا تھا جس کا شایان کو بے صبری سے انتظار تھا۔ وہ آفرحہ کی وجہ سے آج کل گھر پر ہی تھا۔ ساوی کے آنے کے اگلے دِن ہی وہ واپس اپنے گھر آگئے تھے اور نادیہ بیگم کے کہنے پر شایان نے جاب چھوڑ دی تھی اور دُرید کے ساتھ آفس جانے لگا تھا۔۔ نادیہ بیگم، شایان اور ساوی ہسپتال میں موجود تھے جب کہ افرحہ اندر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔ ساوی چیئر پر بیٹھی شاہ میر کو تھامے ہوئے تھی جو اُسے ٹکر ٹکر دیکھتا غوغا کر رہا تھا۔ جبکہ ساوی افرحہ کی صحت یابی کی دعا مانگ رہی تھی۔ شایان مضطرب سا اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔ نادیہ بیگم بھی افرحہ کے لیے دُعا مانگ رہیں تھیں۔ دُرید وہاں موجود نہیں تھا اُسے آفس کا کوئی ضروری کام تھا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آئی تھی۔ "ڈاکٹر میری بیوی کیسی ہے؟ ڈاکٹر کے قریب آتے شایان نے بے تابی سے پوچھا۔ "آپ کی مسسز بلکل ٹھیک ہیں اور بہت مبارک ہو آپ کی بیٹی ہوئی ہے۔ کُچھ دیر میں آپ کی مسسز کو روم میں شفٹ کر دیا جائے گا پھر آپ مل سکتے ہیں۔" ڈاکٹر نے مُسکُراتے جواب دیا۔ جس پر سب نے شُکر کا کلمہ ادا کیا. اور میری بیٹی؟ شایان نے پوچھا۔ "وہ بھی بلکل ٹھیک ہے بس کُچھ دیر بعد آپ کی بیٹی آپ کے پاس ہو گی۔" ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں کہتی آگے بڑھ گئی۔ پھر کُچھ دیر بعد سب افرحہ کے پاس موجود تھے افرحہ نیم بے ہوشی میں تھی جبکہ شایان اپنی بیٹی کے ننھے ننھے ہاتھ تھامے اُس کا لمس محسوس کر رہا تھا۔ اُس کا جگر گوشہ اِس وقت اُس کے ہاتھوں میں سانسیں لے رہا تھا جسے وہ محبت سے دیکھ رہا تھا۔ "ماما دیکھیں کتنی کیوٹ ہے ۔ یہ بلکل میری طرح ہے۔" شایان نے اُس کے چھوٹے سے ماتھے پہ پیار دیتے کہا۔ "ہاں میری پوتی بہت پیاری ہے تم سے بھی زیادہ پیاری۔" نادیہ بیگم نے شرارت سے کہا۔ "یہ بلکل افرحہ بھابھی کی طرح ہے بس آنکھیں آپ کے جسیی ہیں۔" ساوی نے بچی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ شایان نے آسودگی سے اُس سینے سے لگایا اور نم آنکھوں سے خدا کا شُکر ادا کیا جس نے اُسے اپنی رحمت سے نوازا۔ افرحہ کے ہوش میں آتے ہی نادیہ بیگم اور ساوی نے اُسے مبارکباد دی تھی۔ جبکہ شایان اُس کے پاس کھڑا تھا۔ نادیہ بیگم اور ساوی اُن دونوں کو اکیلا چھوڑنے کر باہر چلی گئیں کہ اِس وقت دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ آپ خوش ہیں؟ افرحہ نے بچی کو گود میں لیتے پوچھا۔ "بہت بہت خوش ہوں شُکریہ میری دُنیا کو مکمل کرنے کے لیے۔" اُس نے افرحہ کی پیشانی پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑا تھا۔ افرحہ نے مسکرا کے شایان کو دیکھا جو اب اپنی بیٹی سے رازونیاز کر رہا تھا۔ اُس نے طمانیت سے آنکھیں موند لیں۔ کُچھ دیر بعد دُرید اندر داخل ہوا جس کے پیچھے ساوی شاہمیر کو اُٹھائے ہوئے تھی جبکہ نادیہ بیگم بھی ساوی کے ساتھ تھی۔ "بہت بہت مبارک ہو تُم دونوں کو۔ فائینلی میں چچا اور ماموں بن گیا۔" درید نے آگے بڑھتے شایان کے گلے لگ کر کہا اور پھر افرحہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔ شایان ساوی کا لحاظ کر کے درید سے خوشی سے ملا ورنہ اُس کا بلکل دِل نہیں تھا۔ رات کو افرحہ کے پاس شایان اور نادیہ بیگم رُک گئے تھے۔ جبکہ دُرید ساوی کو لیے گھر واپس آگیا تھا۔ ساوی درید کے ساتھ آتی جھجک رہی تھی۔ مگر کب تک وہ اُس سے دور رہتی اگر کو وہ اپنے شوہر والا حق جتا لیتا تو وہ کیا کر لیتی۔ مانا کہ اُسے کُچھ یاد نہیں تھا مگر وہ ایک ہیپی فیملی کی طرح رہتے تھے اور جتنا ساوی نے محسوس کیا تھا دُرید اس سے بہت محبت کرتا تھا اور افرحہ نے بھی بتایا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ اگر ساری زندگی یاداشت واپس نہ آئی تو کیا ساری زندگی درید سے بھاگتی رہے گی؟ اب وہ اُس سے نہیں جھجکے گی آخر کو وہ اُس کا شوہر ہے اُس کے بچے کا باپ پھر وہ کیوں ڈرتی ہے حالانکہ وہ تو اُس کی بات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ یہی سب سوچتے اُس نے خود کو ریلیکس کیا تھا اور درید کے ساتھ گھر آگئی تھی شاہ میر راستے میں ہی سو گیا تھا۔ بو کو خوشخبری سُنا دی تھی جس پہ انہوں نے افرحہ اور شایان کو بہت دعائیں دی تھیں۔ اور پھر رات کا کھانے کے بعد وہ اپنے کوارٹر میں چلی گئی تھیں۔ درید کھانا کھانے کے بعد چینج کرنے چلا گیا تھا جبکہ ساوی شاہمیر کو بے بی کاٹ میں ڈالنے لگی تھی جو کہ درید نے ساوی کے گھر آتے ہی منگوا لیا تھا۔ وہ جھک کر شاہ میر کا معصوم چہرہ دیکھ رہی تھی جب درید نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ "وہ سو چُکا ہے جا کے چینج کرو اور پھر ریسٹ کرو تھک گئی ہو گی۔" درید نے اُس کے چہرے پہ تھکاوٹ دیکھتے فکر سے کہا۔ ساوی کُچھ پل اُس کی طرف دیکھتی رہی پھر سر ہلاتی الماری سے نائٹ ڈریس نکالتی باتھ روم چلی گئی۔ درید بستر پر لیٹ چُکا تھا ایک ہاتھ آنکھوں پہ رکھا تھا۔ ساوی باہر آئی تو اندازہ نہ کر سکی کہ وہ سو گیا یا جاگ رہا ہے۔ وہ چلتی ہوئی اپنی سائیڈ پہ آکے لیٹ گئی اور درید کی طرف رُخ کر کے لیٹ گئی اور درید کو دیکھنے لگی۔ کُچھ دیر بعد درید نے بھی رُخ اُس کی طرف کر لیا اور اُس کی نظریں سیدھا ساوی کی نظروں سے ٹکرائیں۔ کُچھ پل وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جہاں درید کی آنکھوں می۔ اُس کے لیے محبت، فکر، مان تھا وہیں ساوی کی آنکھوں میں بے بسی اور اُلجھن تھی۔ درید کروٹ بدلنے لگا کہ ساوی نے اُس کا بازو پکڑ لیا۔ درید نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔ ساوی خاموشی سے آگے ہوئی اور اُس کے بازو ہٹاتی اُس کے سینے پہ سر رکھ گئی پھر اُس کے دونوں بازو اپنے گِرد باندھ دیے کہ وہ مکمل اُس کے حصار میں آگئی۔ درید اُس کی حرکت پہ ششدر سا ساکت رہ گیا۔ اُسے بلکل امید نہیں تھی کہ ساوی کبھی اُس کی طرف پہل کرے گی۔ "مجھے نہیں پتہ میں آپ سے محبت کرتی تھی یا نہیں۔ مگر آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت کا سمندر دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ مجھے اپنے دل میں آپ کے لیے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ مم مجھے تنہا نہیں رہنا۔ مجھے آپ کے ساتھ زندگی گُزارنی نہیں جینی ہے۔ آپ مم مجھ سے محبت کک کرتے ہیں نہ؟ اپنے دل کی حالت بتاتی آخر میں وہ اُس سے سوال کرتی کانپ سی گئی۔ "بہت بہت بہت محبت کرتا ہوں اتنی کہ تُم تنگ پڑ جاو ہمیشہ تُمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے چاہتا ہوں۔ تُم بے شک مجھ سے محبت نہ کرو میں ہی تُمہارے حصے کی محبت کر لوں گا اور میری محبت ہم دونوں کے لیے کافی ہے۔" اُس کے سوال کا جواب دیتا وہ اُس پہ جھک سا گیا۔ ساوی اُس کی آنکھوںیں دیکھنے لگی جہاں موجود اُ سکے لیے محبت اُس کے الفاظ پہ سچائی کی مہر لگا رہیں تھی۔ وہ مُسکرا دی۔ اُسے مسکراتا دیکھ وہ سر شار سا اُس پر جھک گیا اور اُس کے کانوں میں محبت بھری سرگوشیاں کرتے وہ اُس پہ اپنی چاہتیں اپنی شدتیں لٹانے لگا کہ ساوی بے اختیار اُس میں سمٹ سی گئی شاید درید کی سنگت میں اُسے سب یاد آہی جاتا۔


ساوی کی جھجک درید سے کم ہوئی تھی وہ اب نارمل ہو گئی تھی بیتی باتیں یاد کرنے کی کوشش کرتی وہ اُلجھ سی جاتی تھی۔ مگر پھر درید کی محبت اُس کی توجہ اُس کا دھیان بھٹکا دیتی۔ اُسے درید کی قربت کبھی انجانی نہیں لگی تھی وہ اکثر حیران ہوتی مگر پھر یہ سوچ کر خود کو مطمئن کر دیتی کہ وہ شوہر تھا اُس کا۔ اُس کے لمس سے آشنائی کوئی عجیب بات تو نہیں۔ جہاں ساوی مطمئن اور پُرسکون ہوئی تھی وہی درید پریشان رہنے لگا اگر ساوی کی یاداشت واپس آگئی اور اُس نے اُسے معاف نہ کیا تو؟ پھر سے چھوڑ گئی تو اُس کا کیا ہو گا پچھلے نو ماہ کی دوریاں پھر سے اُن کے بیچ آگئیں تو؟ ایسے بہت سے سوال تھے جو اُس کے دماغ میں چلتے رہتے مگر ان کا کوئی جواب نہ ملتا۔ افرحہ دو دن بعد گھر واپس آگئی تھی۔ بچوں کے ہنسنے اور رونے کی آوازوں سے گھر میں رونق سی یو گئی تھی۔ بچی کا نام اُس کی دادی یعنی نادیہ بیگم نے انمول رکھا تھا جسے سب نے بہت پسند کیا تھا۔ شایان اور درید تو آفس کے کاموں میں بزی ہو گئے تھے جب کہ افرحہ اور ساوی افرحہ کے کمرے میں بچوں کے ساتھ مگن رہتیں کبھی کبھی نادیہ بیگم بھی ساتھ شامل ہو جاتیں۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے نہ تھکتیں جس نے اُن کی کھوئی خوشیاں واپس لوٹا دیں تھیں۔ " نور بیٹا درید بیٹے کا فون تھا انہوں نے کہا ہے کہ آپ کو پیغام دے دوں کہ آپ اور شاہ میر شام کو تیار رہیے گا وہ آج آپ کے ساتھ ڈنر باہر کریں گے۔" بوا کمرے میں آتیں درید کا پیغام دیتی واپس چلی گئیں۔ "اوئے ہوئے۔ درید بھائی کُچھ زیادہ رومانٹک نہیں ہو گئے؟" افرحہ نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ "کیوں پہلے رومانٹک نہیں تھے؟" ساوی نے سُرخ چہرے سے پوچھا۔ "نہ پہلے تو وہ بہت کھڑوس تھے اتنے سنجیدہ سے " افرحہ مزید بولی۔ "نہیں تو۔ وہ تو ایسے نہیں ہیں بہت اچھے ہیں وہ میرا اتنا خیال رکھتے ہیں اور تمہیں پتہ ہے تم نے سچ کہا تھا وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں" ساوی نفی میں سر ہلاتے بولی۔ "ہاں محبت تو وہ تم سے واقعی بہت کرتے ہیں ایک بات کہوں؟ افرحہ نے پوچھا۔ ہاں کہو۔ وہ شاہ میر کی طرف دیکھتی محبت سے بولی جو بیڈ پہ لیٹا ٹانگیں اِدھر اُدھر مار رہا تھا۔ "درید بھائی تُم سے بہت محبت کرتے ہیں اگر کبھی درید بھائی سے کوئی بلت بڑی غلطی ہو جائے تو انہیں معاف کر دینا" اُس نے غیر واضح انداز میں کہا۔ "تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو۔" ساوی پریشان ہوئی۔ "کُچھ نہیں بس ایسے ہی۔ اب تُم جاؤ جلدی سے جا کے خود کو اور اپنے لاڈلے کو تیار کرو۔" اُس نے ٹالتے ہوئے کہا۔ "ہمم ٹھیک ہے" وہ شاہ میر کو اُٹھاتی الجھن سے باہر کی طرف بڑھ گئی۔

   0
0 Comments